Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 18

"تُم مریام شاہ کے بھائی ہو۔۔۔۔۔۔" "جی لٹل برادر ہوں میں،ابھی آئے گئے بگ برو ملوا دُونگا آج تُمہیں اُن سے۔۔۔۔۔۔۔"وہ مُسکرا کر بولتا راٹھور کو زہر لگا۔ "بلاؤ اپنے بگ برو کو،آج یہ کھیل یہی ختم کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔"راٹھور اشعتیال انگیز لہجے میں بھڑکا۔ "وہ بھی آ جائیں گئے پہلے اپنے آدمیوں کو بولو کہ پسٹل پیچھے کریں ورنہ یہ جان سے جائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔" "کیا کرو گئے تُم،اس وقت تُم میرے رحم و کرم پر ہو تُم کُچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اوہ ریئلی۔۔۔۔۔۔"بُرہان اُس کی کم عقلی پر محفوظ ہوا۔ "راٹھور کیا تُم نے مُجھے مطلب بُرہان شاہ کو اتنا بیوقوف سمجھا ہے کہ وہ یوں سانپ کے بل میں آ جائے گا ارے میں تو مریام شاہ کا بھائی ہوں جو اپنے دُشمن کو ایسی جگہ ڈستا ہے کہ وہ پانی کو بھی ترس جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اگر میں تُم پر اس وقت گولی چلا دُوں تو مریام شاہ کیا تُمہارا باپ حسن شاہ بھی تُمہیں آہ۔۔۔۔۔۔۔"اس کے باقی کے الفاظ اس کے مُنہ میں ہی تھے کہ مریام شاہ کے پسٹل سے نکلتی گولی اسکے ہاتھ سے نہ صرف پسٹل نیچے گرا چُکی تھی بلکہ وہ ذخمی ہاتھ پکڑتا خُود بھی زمین پر گُھٹنوں کے بل بیٹھا تھا سعید جو چھت سے سب دیکھ رہا تھا اُس نے جلدی سے راٹھور کے دونوں آدمیوں کو نشانہ بنایا تھا اگلے لمحے وہ بھی زمیں پر تھے اُسامہ گولی کی آواز سُنتا بھاگ کر اندر گیا اندر کا منظر دیکھ کر سکون کا سانس لیتا بُرہان کے پاس آیا۔ "شُکر ہے تُم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔" "میرے ہوتے ہوئے تُم دونوں کو کُچھ نہیں ہو سکتا اُسامہ۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔ "جونیجو،تُم،تُم انکے ساتھی ہو۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے چہرے پر حیرانگی کے تاثرات دیکھ کر تینوں کے چہروں پر مُسکراہٹ چمکی۔ "مریام شاہ ویسے تُمہارے دُشمن بہت بیوقوف ہیں یار،مُجھے یہ سمجھ نہیں آتی اتنا شاطر دماغ ہونے کے باوجود یہ ہم سے دھوکہ کتنی آسانی سے کھا جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔"اُسامہ مُسکرا کر بولتا کُرسی پر بیٹھ گیا مریام شاہ اور بُرہان نے بھی اپنی مُسکراتی آنکھوں سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں شش و پنج کے تاثرات نظر آ رہے تھے۔ "کیا کہنا چاہ رہے ہو تُم لوگ۔۔۔۔۔۔۔" "بہت کُچھ کہنا اور سُننا ہے راٹھور،فلحال تو تُم ہمیں مہمان نوازی کا موقع فراہم کرو تا کہ ہم اچھے سے تُمہاری خدمت کر کے تُمہیں بلوچ کے پاس بھیجیں۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ اُس کے پاس آیا اور رومال اُسکے مُنہ پر رکھ دیا اگلے پل ہی وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتا زمین پر ڈھے گیا۔ "سعید اسے گاڑی میں ڈال کر اُسی ٹھکانے پر لے چلو،میں اور اُسامہ بھی آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اب وہ بُرہان کی طرف پلٹا۔ "بُرہان شاہ تُم شہباز کا کام ختم کر کے واپس اسلام آباد جاؤ،اب اور زیادہ رُکنا ٹھیک نہیں ہوگا تُمہارے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔" "پر مُجھے بھابھی سے ملنے شاہ پیلس جانا ہے۔۔۔۔۔۔" "وہاں جانا ضروری تو نہیں۔۔۔۔۔۔"اُس نے آنکھیں دکھائیں۔ "ضروری ہے پھر پتہ نہیں کب چُھٹی ملے،میں باقی کے بارہ گھنٹے وہاں گُزرانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "اوکے ٹھیک ہے پر اگر تُم نے کُچھ بھی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو تُمہاری پوسٹنگ پاکستان سے بھی باہر کروا دُونگا یاد رکھنا بُرہان شاہ،چلو اُسامہ۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسے وارن کرتا اُسامہ کو ساتھ چلنے کا اشارہ کرتا آگے بُرھ گیا تو اُسامہ نے بُرہان شاہ کے لٹکے مُنہ کو دیکھ کر ہنسی دباتا اُس کے پیچھے ہو لیا۔

"_________________________________"

"اُف کیا بتاؤں بھابھی کہ کتنی مُشکل سے بھائی کو منایا ہے آپ سے ملنے کے لیے،وہ مُجھے آپ سے ملنے کی اجاذت نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔۔"بُرہان شاہ پرخہ کے سامنے مریام شاہ کا کھاتہ کھول چُکا تھا آخر اُسے بھی تو مریام شاہ کے ہر روب اور دبدبے سے بچنے کے لیے پرخہ کی سپورٹ چاہئیے تھی جس کے تھرو وہ مریام شاہ سے اپنی ہر بات منوا سکتا تھا۔ "کیوں،شاہ نے تو کہا تھا کہ آپکی جاب ایسی کہ آپکو چُھٹی نہیں مل رہی اس لیے آپ مُجھ سے ملنے نہیں آ رہے،اُسامہ بھائی نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ اسلام آباد ہو۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کو جیسے یقین نہ آیا۔ "اُسامہ بھائی کو تو رہنے دیں آپ وہ تو وہی کہیں گئے جو بگ برو کہیں گئے،آپ کے شوہر نامدار جھوٹ بول رہے تھے آپ سے،میں تو کراچی میں ہی تھا ایک ماہ سے،نہیں یقین تو علینہ سے یا عامرہ خاتون سے پوچھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔."اُس نے چائے لاتی عامرہ خاتون کی طرف اشارہ کیا جس پر پرخہ نے جواب طلب نظروں سے دیکھا۔ "جی پرخہ بیٹا،بُرہان بیٹا تو یہی تھے۔۔۔۔۔۔" "دیکھا بھابھی،اصل میں بھائی بھلا کیوں نہیں ملنے دے رہے تھے مُجھے آپ سے۔۔۔۔۔۔۔"پیزا کی پلیٹ اپنے سامنے کرتے ہوئے اُس نے سسپینس پھیلایا۔ "کیوں۔۔۔۔۔۔"وہ پوری طرح متوجہ ہوئی۔ "اصل میں وہ جانتے ہیں کہ میں اور آپ بچپن میں بہت اچھے دوست رہ چُکے ہیں اس لیے اُنکو ڈر ہے کہ میں آپ کو اُنکے سارے افیئرز کے بارے میں بتا دُونگا۔۔۔۔۔۔۔" "کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھیں حیرت سے کُھلیں تھیں بُرہان شاہ اپنی کامیابی پر خُوش ہو رہا تھا۔ "میں آپکو بتاتا ہوں اصل میں بھائی اس وقت سی سائیڈ پر ہیں،آپکو تھوڑی دیر پہلے کال کر کے اُنہوں نے یہ کہا ہے نہ کہ وہ کسی بزنس میٹنگ میں مصروف ہیں اس لیے رات کو لیٹ آئیں گئے پر سچ تو یہ ہے وہ کسی دوشیزہ کے ساتھ مصروف ہیں۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان شاہ مکمل پھاپھا کُٹنی کا رول پلے کر رہا تھا۔ "شاہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ روہانسے لہجے میں بولی۔ "میں ابھی جا کر پوچھتی ہوں اُن سے۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھی تھی۔ "ارے نہیں بھابھی،ایسا نہیں کرنا۔۔۔۔۔۔"اُس نے جلدی سے روکا تھا اُسے پتہ تھا اگر مریام کو پتہ چل گیا کہ وہ اُسکے خلاف اُسکی بیوی کے کان بھڑ رہا ہے تو وہ اسے دُنیا کے آخری کونے میں بھیجنے سے بھی گریز نہ کرتا۔ "اگر آپ اُن کو یہ کہیں گی تو اُنکا سارا نزلہ مُجھ پر گرے گا وہ پہلے ہی میرے خلاف ہیں بس آپ نے اتنا کرنا ہے کہ جو میں کہونگا اُس پر عمل کرنا ہے اور بھائی کو اس بات کی بھنک بھی نہیں پڑنے دینی ورنہ وہ مُجھے زندہ نہیں چھوڑیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان اپنا لہجہ بڑا غمگین بنا گیا تھا پرخہ اُسکی چلاکی کو بنا سمجھے سر زور سے ہلا گئی جس پر بُرہان نے دل ہی دل میں مُسکراتے خُود کو شاباش دی۔ "مریام شاہ اب آپ مُجھ کوئی ظلم نہیں کر پائیں گئے کیونکہ اب مُجھے آپ کی بیوی کی سپورٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان زیر لب مُسکرایا پھر پیزا سے پوری طرح انصاف کرتا کن انکھیوں سے پرخہ کو دیکھنے لگا جو پریشان سی بیٹھی کُچھ سوچ رہی تھی۔

"__________________________________"

مریام شاہ سگریٹ کا بڑا سا کش لیتا کمرے سے نکلتے اُسامہ کی طرف متوجہ ہوا۔ "اُسے ہوش آیا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔" "آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کے کہنے پر وہ اسکے ساتھ چلتا اُس کمرے میں آیا جہاں راٹھور کو باندھا ہوا تھا۔ "تلاشی لے لی تُم نے۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے گُھمن سے پوچھا۔ "جی سر اب کوئی ڈیوائس یا چُپ نہیں ہے اسکی باڈی پر۔۔۔۔۔"اُس نے جواب دیا مریام شاہ نے نظریں اُس پر ٹکائیں جو آہستہ آہستہ ہوش کی دُنیا میں آ رہا تھا۔ "ایس پی عارف راٹھور،بارہ سال تُم ماسک کے پیچھے خُود کو چُھپا کر دُنیا سے تو اپنی اصلیت چُھپاتے رہے پر افسوس اپنے دُشمن مریام شاہ سے خُود نہ تو چُھپا پائے اور نہ بچا پائے۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ اس کے قریب کُرسی کھینچ کر اُس پر ٹک گیا۔ "تُم جونیجو تُم انکے ساتھی ہو۔۔۔۔۔۔" "جونیجو نہیں مریام شاہ ہوں میں مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔" "کیا۔۔۔۔۔۔"اُسکا مُنہ حیرت کی زیادتی سے کُھلا۔ "ہاں وہ مریام شاہ جس نے تُم لوگوں کو بتایا کہ اصلیت چُھپانا آخر کہتے کسے ہیں،تُم لوگ بارہ سال سے جس مریام شاہ کے پیچھے بھاگتے رہے وہ تو اصل میں مریام شاہ تھا ہی نہیں اور جو تھا وہ تُم لوگوں کے درمیان رہ کر تُم لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونکتا رہا،پر افسوس کہ تُم لوگ مکار تو تھے پر زہین نہیں تھے راٹھور۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے لہجے میں طنز اور تمسخر تھا جبکہ راٹھور اسکے مُنہ سے نکلتے انکشاف پر بھونچکا رہ گیا اُس تو پُورا کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ "اگر تُم مریام شاہ ہو تو یہ۔۔۔"اُسکا اشارہ اُسامہ کی طرف تھا جو مُسکرایا تھا۔ "یہ اُسامہ شاہ ہے،نیاز علی شاہ کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مطلب وہ مریام شاہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چکرا کر رہ گیا تھا جس کو مریام شاہ سمجھ کر فوکس میں رکھا تھا وہ تو تھا ہی نہیں اور جو تھا اُسے اپنے ساتھ رکھ کر خُود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے رہے راٹھور کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے منظر گھومنے لگے جب وہ لوگ مریام شاہ کی چالوں میں پھنستے رہے تھے۔ "اُسکو کہتے ہیں اصل دُشمنی اصل چکر راٹھور،جو کھیل تُم تینوں نے مل کو بارہ سال پہلے رچایا تھا اُسکا آج اختتام ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ اسکے بے بس چہرے کی طرف دیکھ کر بولا جہاں پہ خوف کی لہریں صاف نظر آ رہی تھیں۔ "حاکم کا بتاؤ گئے یا پوچھنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے ادھ جلی سگریٹ کا ٹکرا زمین پر پھینک کر اپنے جوتے سے مسلتے ہوئے اُسکی طرف دیکھا جیسے اُسے بھی مسل دینا چاہتا ہو۔ "حاکم،مُجھے کیا پتہ۔۔۔۔۔"وہ مُکڑ گیا تو مریام شاہ نے اُسامہ کی طرف دیکھا۔ "دیکھ لو بڑے پیار سے پوچھ رہا ہوں،پر یہ لوگ مریام شاہ کی پیار کی زبان کہاں سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے مریام نے شرٹ کے نیچے سے پسٹل نکال کر راٹھور کے سر پر رکھا تھا پہلے تو راٹھور کا خوف سے رنگ پھیکا پڑا تھا پھر مُسکرایا۔ "نہیں مار سکتے تُم مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی خُوش فہمی یا غلط فہمی پر مریام محفوظ ہوا۔ "اچھا کیوں نہیں مار سکتے۔۔۔۔۔۔" "کیوں کہ حاکم تک صرف میں ہی لے کر جا سکتا ہوں تُم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔" "اوہ رئیلی،سُنا اُسامہ کتنے پتے کی بات کی ہے اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ ہنسا تھا۔ "ویسے بلوچ نے بھی مجھے کچھ ایسا کہا تھا کہ میں ہی تُمہیں راٹھور تک لے کے جا سکتا ہوں لیکن مُجھے تب بھی اُسکی ضرورت نہیں تھی اور آج بھی تُمہاری نہیں،اس کام کے لیے بُرہان شاہ ہے نہ،جب وہ تُمہارا پتہ لگا سکتا ہے تو حاکم کس کھیت کی مولی ہے،اب بتاؤ اب بھی کیا نہیں ماریں گئے تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے پتھریلے انداز پر وہ تھوک نگلتے ہوئے بولا۔ ""ہاہا،نہیں مار سکتے تُم لوگ مُجھے،کبھی نہیں کیونکہ راٹھور کبھی بھی کوئی کچا کام نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔"اُسکی کمینی ہنسی پر مریام شاہ کے دماغ پر کسی خطرے کی گھنٹی بجی تھی۔ "کیا کہنا چاہتے ہو تُم۔۔۔۔۔۔"اُسامہ بھی جیسے اُسکی پُرسرار باتوں پر اُلجھا تھا۔ "جب تُم لوگوں نے مُجھ پر حملہ کیا تھا اُسی وقت حاکم کو پتہ چل گیا تھا کیونکہ میرے ٹائی پن پر لگا کیمرہ سب منظر اُسے دکھا چُکا تھا جو کسی بھی ایمرجنسی کے لیے ہم نے لگایا تھا،اب تک یقیناً حاکم مجھے یہاں سے نکالنے کے لیے کُچھ تو انتظام کر چُکا ہوگا،نہیں یقین تو شاہ پیلس کال ملا کر دیکھ لو مریام شاہ۔۔۔۔۔۔"اُسکے لبوں پر کمینی مُسکراہٹ چمکی جس کو دیکھ کر مریام شاہ کے مظبوط اعصاب کو بھی جھٹکا لگا تھا اُس نے ایک تپتی نظر راٹھور کے معنی خیزی سے مُسکراتے چہرے پر ڈالی پھر اپنا موبائل ہاتھ میں لیے بُرہان کا نمبر ملایا مگر نو رسپونس اُس نے پریشانی سے پیشانی کو مسلا اور اُٹھو کھڑا ہوا اور بے چینی سے پرخہ کا نمر ملایا بیل جاتی سُن کر اُسکی دھڑکنیں بے اختیار بے ترتیب ہو گئیں تھیں وہ شدت سے اُسکی آواز سُننے کا خواہش مند تھا لیکن متواتر ہوتی بیل کے باوجود جب اُس نے فُون نہیں اُٹھایا تو اس کا دل تیزی سے ڈوب کر اُبھرا اُس نے اضطراب سے اُسکا نمبر دوبارہ ملاتے ہوئے اُس نے فُون کان سے لگایا مگر جب اس بار بھی اسکی کال ریسیو نہیں کی گئی تھی تو اُسکا دل بے جان ہونے لگا اس نے قہر بھری نظروں سے راٹھور کے مُسکراتے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر جیسے سارا ضبط ختم ہو گیا تھا غُصے سے پاگل ہوتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ پوری طاقت سے راٹھور کے مُسکراتے چہرے پر مارا تھا کہ اُسکا جبڑا ہل کر رہ گیا تھا۔ "اگر میری بیوی یا بھائی کو ایک کھر وچ بھی آئی تو یاد رکھنا راٹھور تُمہاری اور حاکم کی وہ حالت کرونگا کہ تُم لوگ موت بھی مانگو گئے نہ تو وہ بھی نہیں ملے گی،تُم لوگوں کی بوٹیاں چیل کؤوں کو نہ کھلائیں تو میرا نام بدل دینا راٹھور۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ بھینچے ہوئے لہجے میں بولتا راٹھور کو سُن کر گیا اُسکی آنکھوں سے پھوٹتی چنگاریاں جیسے سب کُچھ بھسم کر دینے والی تھیں۔ "شاہ ریلیکس۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ جو خُود بھی کُچھ پریشان سا ہو گیا تھا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے شانت کرنا چاہا تھا مریام شاہ گہری سانس لیتا پیچھے ہوا تھا تبھی اُس کے زہن میں ایک جھمکا ہوا۔ "اوہ شٹ۔۔۔۔۔۔"وہ خُود کو کوس کر رہ گیا پھر جلدی سے موبائل نکال کر اُسکی ٹچ سکرین پر اُنگلی چلانے لگا اگلے ہی پل اُسکے موبائل کی سکرین پر شاہ پیلس کا منظر تھا ہال میں بیٹھے بُرہان شاہ اور پرخہ کو باتوں میں مصروف دیکھ کر بے اختیار اُس نے شُکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے گہری سانس بھر کر اپنے اعصاب کو ڈھیلا کیا تھا صحیح کہتے ہیں پریشانی اور غُصے میں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بند ہو جاتی ہے مریام شاہ کے ساتھ بھی اس وقت ایسا ہی ہوا تھا راٹھور کی باتوں پر وہ اس قدر پریشان ہوا تھا کہ اُس نے اپنی عقل کا استمال نہیں کیا تھا یہ تک بُھول گیا تھا کہ شاہ پیلس کے سارے کیمرے اُسکے سیل فون سے کونیکٹڈ تھے۔ "کیا ہوا مریام۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ اسکے قریب آیا مریام نے سکرین اُسکی آنکھوں کے سامنے کی جس کو دیکھ کر وہ بھی ریلیکس ہوا تھا یہ سارا منظر دیکھتا راٹھور کُچھ حیران ہوا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے مریام شاہ کس قدر تپ رہا تھا اور اب پُرسکون تھا۔ "تُم اس کا مُنہ کھولنے کی کوشش کرو میں بُرہان سے بات کر کے آتا ہوں،ایک پل کے لیے تو اس نے مُجھے میری موت سے ملوادیا تھا میں اب دوبارہ ایسا کوئی چانس نہیں لینا چاہتا اُسامہ۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کو کہتا وہ باہر آیا جہاں اُس نے بُرہان کا نمبر ملایا تو دوسری بیل پر ہی کال ریسیو ہو گئ۔ "بگ برو میں واش رُوم میں تھا،ابھی آپکی مسڈ کالز دیکھیں خیر ہے۔۔۔۔۔۔"بُرہان کے پوچھنے پر مریام شاہ نے اُسے سب بتا دیا۔ "بھائی آپ شاہ پیلس کی فکر نہ کریں،میرے ہوتے یہاں کا کوئی پتہ نہیں ہلا سکتا۔۔۔۔۔۔"بُرہان فوری اپنی ڈیوٹی پر آیا تھا۔ "مُجھے تُمہاری بھی فکر ہے بُرہان اس لیے جو کہہ رہا ہوں وہ کرو،میرے خیال کے مُطابق حاکم کو ابھی تک نہیں پتہ چلا ہوگا کہ راٹھور اغوا ہو گیا ہے اس لیے ہم پلان کے مطابق ہی چلیں گئے پر اگر اُسے خبر ہو چُکی ہے تو وہ شاہ پیلس پر اٹیک ضرور کرے گا مقصد پرخہ تک رسائی تا کہ وہ ہمارے ہاتھ باندھ سکے اور ایسا ہم کبھی نہیں کر سکتے اس لیے تُم زرا چونکنا ہو کر رہنا اگر کوئی ایسی سچوئشن آتی ہے کہ تُمہیں باہر نکلنا پڑے تو پرخہ کو سیف رُوم میں لاک کر لینا اور ایسا کرنے سے پہلے اُسے بیہوش کر لینا میں نہیں چاہتا اُسے کُچھ بھی پتہ چلے یا وہ ڈر جائے۔۔۔۔۔۔۔۔" "جی بھائی آپ فکر نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔" "شہباز کا کیا بنا۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے پوچھا۔ "وہ ہی ایکسیڈنٹ اوور ڈرنکنگ کرنے کی وجہ سے پولیس اور میڈیا کے مُطابق۔۔۔۔۔۔"بُرہان نے معصومیت سے کہا جس پر مریام شاہ مُسکرا دیا۔ "اوکے پھر خیال رکھنا اپنا۔۔۔۔۔۔"مریام نے فُون بند کرنا چاہا۔ "اور بھابھی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرارت سے بولا۔ "مُجھے پُورا یقین ہے پرخہ کے دو بھائی ایسے ہیں جو اپنی جان پر کھیل کر اُسکی حفاظت کریں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے کہتے ہوئے کال بند کر دی۔

"_________________________________"

آخرکار وہ لوگ اپنے پلان میں کامیاب ہو گئے تھے راٹھور کو اپنی باتوں میں اُلجھا کر وہ اُسے حاکم کو کال کرنے میں راضی کروا چُکے تھے۔ "کرو کال حاکم کو اور اُسے بولو اُسی جگہ ملنے آئے،ہم گارنٹی دیتے ہیں تُمہیں آزاد کر دیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے راٹھور کا موبائل اُسکی طرف بڑھایا جسے ہچکچاتے ہوئے تھام کر اس نے حاکم کا نمبر ملایا تھا۔ "ہاں بولو راٹھور،کہاں ہو ابھی نیوز سُنی شہباز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سپیکر لاؤڈ ہونے کی وجہ سے جہاں راٹھور اس نیوز پر چونکا تھا وہی اُسامہ اور مریام شاہ مُسکرائے تھے انکی مُسکراہٹ دیکھ کر راٹھور کو سب سمجھ آنے لگی اُسے سانس لینا دشوار لگنے لگا۔ "اچھا،میں نے نہیں دیکھی اصل میں مُجھے تم سے ملنا ہے حاکم،مریام شاہ کا کُچھ کرنا پڑے گا،مُجھے لگتا اس کے پیچھے بھی وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "ٹھیک کہہ رہے ہو تم،آ جاؤ اُسی سکول میں آدھے گھنٹے تک۔۔۔۔۔۔۔۔"حاکم کے کہنے پر اُسامہ نے اُسکے ہاتھ سے موبائل لے کر بند کر دیا۔

   0
0 Comments